in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c
"میٹھی زبان والے زہریلے لوگ"
کسی زمانے میں مجھے دھیمے انداز اور میٹھے لہجے رکھنے والے لوگ بہت پسند تھے۔ میں اکثر ایسے انسانوں کے calm رہنے اور نرمی سے بات کرنے پر رشک کرتی تھی۔
اور یہ ان وقتوں کی بات ہے جب کبھی میرا ایسے لوگوں سے ڈائریکٹ کوئی واسطہ نہیں پڑا تھا۔
آپ جانتے ہیں کہ جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے ہیں، پھر مجبوراً ہی سہی آپ کو بہت سے لوگوں سے ملنا جلنا پڑتا ہے۔ بات کرنی پڑتی ہے۔ ساتھ رہنا پڑتا ہے اور تب آپ پر یہ راز کھلتا ہے کہ یہ جو شہد جیسے الفاظ ہیں درحقیقت زہر ہیں۔ زہر بھی وہ جسے ہم "slow poison" کہتے ہیں۔
میں آپ کو ایک بات بتاؤں آپ کو بے شک rude, straightforward، منہ پھٹ سے لوگ بہت برے لگتے ہیں لیکن یہ خطرناک نہیں ہوتے۔ یہ وہی ہوتے ہیں، جو یہ اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے وار سے خود کو بچایا جاسکتا ہے۔
لیکن ان لوگوں سے خود کو کیسے بچایا جائے بظاہر تو آپ کا خیال رکھتے ہیں مگر درحقیقت آپ کے گلے پر چھری چلا دیتے ہیں۔ آپ کو ان کے وار کا تب پتا چلتا ہے جب گردن کٹ جاتی ہے اور آپ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟
انگریزی میں ایک بہت مشہور بات ہے کہ:
"A soft spoken manipulator is far more toxic than a rude honest person. In a chilly winter night, the latter may just provide a tiny shelter with a scorn face but you won't realise when the former feeds you poison in a warm soup."
یعنی سردیوں کی کسی رات میں بدتمیزی سے پیش آنے والا شخص آپ کو بگڑے منہ کے ساتھ رہنے کو جگہ مہیا کرسکتا ہے۔ لیکن آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ بظاہر نرمی سے پیش آنے والا شخص آپ کو گرما گرم سوپ میں زہر گھول کر بھی پلا سکتا ہے۔
میرا اشارہ جن لوگوں کی طرف ہے، ان کے لیے ایک اصطلاح بہت عام استعمال کی جاتی ہے:
"Soft Spoken Manipulator"
ان اشخاص کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ محسوس ہوتی ہیں۔
یہ آپ کے ذہن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کا ذہن اس بات کو تسلیم کرنے لگتا ہے کہ یہ جو کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اور میرے ہی بھلے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن حقیقت میں آپ کا نقصان اور ان کا اپنا بھلا ہوتا ہے۔
یہ آپ کو ہر وقت پچھتاوے میں مبتلا کرتے رہیں گے۔ آپ کچھ اچھا کرنے کی کوشش کریں گے تب بھی یہ کہیں گے کہ ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا اور آپ اس بات کو لے کر guilt میں پڑ جائیں گے کہ واقعی کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔
یہ کبھی بھی آپ کو appreciate نہیں کریں گے۔ آپ ان کے لیے اپنی جان بھی دے دیں، اپنا دل مار دیں، اپنی خوشی قربان کردیں تب بھی یہ آپ کو یہی باور کروائیں گے آپ ان کے لیے کچھ بھی نہیں کررہے۔
یہ بظاہر آپ کا بہت خیال رکھیں گے لیکن تب تک جب تک آپ ان کے غلام بنیں رہیں گے۔
یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہر کام ان سے پوچھ کر کریں۔ اپنا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا سب ان کی مرضی سے کریں۔اگر آپ کبھی اپنی مرضی سے کچھ کھانے کی کوشش کریں تو انہیں اس بات کی فکر ہوجاتی ہے کہ یہ تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں، اس سے یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا اور خود وہی چیز آپ کے سامنے بیٹھ کر کھائیں گے کیونکہ ان پر تو اثر نہیں ہوتا۔
یہ آپ کو محسوس کروائیں گے کہ آپ کے پاس کوئی عقل سمجھ نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے جو بھی کرنا ہے، ان کے مشورے سے کریں۔
یہ لوگ خود برا کریں گے لیکن ظاہر یہی کریں گے کہ ان کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ یہ اپنی کہانی میں ہمیشہ victim بنتے ہیں۔
ایسے خطرناک لوگوں سے جتنی جلدی ہو، دور ہوجانا چاہیے۔ یہ آپ کو self doubt میں ڈال دیتے ہیں۔ جس سے آپ کو anxiety ہوجاتی ہے۔ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں کیونکہ آپ ایسے لوگوں کی شکایت کسی سے نہیں لگا سکتے۔ آپ جس سے بھی شکایت کریں گے، وہ الٹا آپ کو ہی برا سمجھے گا کیونکہ یہ لوگ تو ہوتے ہی بہت اچھے ہیں۔ آپ ان اچھے لوگوں کو برا ثابت کرتے کرتے خود پاگل ہو جائیں گے۔
اس لیے اپنا بچاؤ خود کریں۔ جو ماں سے زیادہ سگا بننے کی کوشش کرے، اسے اسی وقت No کا بورڈ دکھا دیں۔ میں تعلق توڑنے کی بات نہیں کرتی لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ فاصلہ ضرور رکھیں۔
خود کو emotionally ان لوگوں پر dependent نہ بنائیں کہ جنہیں خوش کرتے کرتے آپ خود خوش رہنا بھول جائیں۔
1 - 0
یقین مانیے!!
ایسے جینے میں بھی ایک الگ مزا ہے
جب آپ لوگوں کو وضاحتیں دینا چھوڑ کر
اُنہیں انکی خوش فہمیوں میں
جینے دیتے ہیں
جب آپ ان سے
خفا ہونا چھوڑ دیتے ہیں
انکو منانا چھوڑ دیتے ہیں
ان کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں ٹھیک ویسے ہی
جیسے وہ آپکو نظر انداز کرتے ہیں جب آپ ان انسانوں کی
طلب سے آزاد ہو جاتے ہیں
جنکی توجہ پانے کی خاطر
کسی وقت میں
آپ لمحہ لمحہ ترستے رہے ہوں
اور اکثر ایسا ہوتا کہ
جس سکون کی تلاش میں
ہم لوگوں کی طلب
اور چاہ میں مارے مارے
پھر رہے ہوتے ہیں
وہ ہمیں ان سے
ٹھکرائے جانے کے بعد
اپنی ذات میں ہی نصیب ہو جاتا ہے اور خود سے دوستی کا نشہ
ایسا نشہ ہے
جو ایک بار سر چڑھ جائے
تو پھر کبھی نہیں اترتا...!😍😍❤️❤️
1 - 0
دو ٹکے کی گھریلو سازشیں😞
ازقلم:: افشاں مراد🖋
وہ سر جھکائے خاموشی سے بیٹھی اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی ،ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ ہار گئی۔ میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے سوال کیا ۔کیا ہوا ہے، ایسے کیوں اداس بیٹھی ہو؟ اس نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگی آج میں ہار کے آئی ہو ں ، مگر کس سے ؟ میں نے بے ساختہ کہا ۔’’اپنی قسمت سے، اپنی تعلیم سے ، اپنے فیصلے سے اور ان دو ٹکے کی گھریلو سازشوں سے جن کے بارے میں، میں مذاق اُڑاتی تھی کہ یہ گھر میں بیٹھنے والی عورتوں کو خوامخواہ کا ہوا بنا لیا ہے ٹی وی ڈراموں نے، ورنہ ایک گھر میں بیٹھنے والی عورت بھلا ایک پڑھی لکھی ، ملازمت پیشہ لڑکی کے خلاف کیا ایسی سازش کر سکتی ہے کہ وہ اسے گھر سے ہی نکال باہر کردے۔ یہ سب آ ج کل نہیں ہوتا اب زمانہ بدل گیا ہے۔
یہ سب صرف ڈراموں میں ہی ہوتا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ایک پر اعتماد، پڑھی لکھی، خوبصورت ہوں اوران سب سے بڑھ کر میرے شوہر مجھے سے بہت محبت کرتے ہیں ،میرا کوئی کیا بگاڑ لے گا اور کیوں بگاڑے گا۔ میں نہ بلا وجہ کسی کے کام میں ، نہ زندگی میں اور نہ ہی کسی کے گھر میں مداخلت کرتی ہوں پھر کوئی کیوں میری زندگی میں مداخلت کرے گا یا آگ لگائے گا۔
اور میں اور میرا شوہر دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، ہم کلاس فیلو رہے ہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ،ہم کیوں کسی کی سازش کے جال میں پھنسیں گے۔ لیکن کیا پتہ تھا کہ، یہ ٹی وی ڈرامے ان ہی سچائیوں پر بنتے ہیں جو ایک عورت ہر روز اپنے گھر میں سہتی ہے۔ میں جو بڑی انٹلیکچوئل بنتی تھی میری اعلٰی تعلیم ، میری لاکھوں کی تنخواہ، میرا حسن سب گھر میں بیٹھی اس عورت کی ایک سازش کی مار تھا، جس کو میں بے ضرر سمجھتی تھی۔
آج میرا شوہر جو میرا دم بھرتا تھا میری طرف دیکھنے کا روادار نہیں ، میری ننھی سی بیٹی جسے وہ گود میں اُٹھائے پھرتا تھا، آ ج اس کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں ۔ مجھے یہ کہہ کرگھر سے نکال باہر کیا کہ مجھے تمھاری ضرورت نہیں ۔‘‘میں ہکا بکا اس کی داستان سن رہی اور سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ ہو ا کیا ہے؟ تفصیل سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک ان کی زندگی میں اس کی ساس اور نند کی انٹری ہوئی اور ان سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ دونوں میاں بیوی ہنستے کھلکھلاتے زندگی گزار رہے ہیں ۔ مل کر زندگی کی گاڑی بھی چلا رہے ہیں دونوں مل جل کر گھر کے کام کاج بھی کررہےہیں ، زندگی میں کوئی چخ چخ بھی نہیں۔
بس یہیں سے وہ مشہور زمانہ گھریلو سازشیں جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے ان کا آغاز ہوا ۔ پہلے یہ اعتراض کر کے بیٹے کو غیرت دلائی گئی کہ، نوکری سے آ کر جورو کا ہاتھ بٹاتا ہے ،پھر کھانے میں اعتراضات شروع ہوئے اور بیٹے کی قسمت پر افسوس کا اظہار کیا گیا جسے ڈھنگ کا کھانا بھی نصیب نہیں ہورہا کتنا کمزور ہو گیا ہے وہ ، پھر بیوی کے پھوہڑ پن پر اس کے کانوں میں زہر انڈیلا گیا۔ اور اس کو اتنا زچ کیا گیا ہے کہ ایک دن وہ بیوی سے لڑ پڑا جب بحث عروج پر پہنچی تو اس بحث میں ساس کی انٹری ہوئی ، جس پر بہو بھی سیخ پا ہوئی اور ساس سے اونچی آواز میں بول پڑی کہ آپ بیچ میں نہ آئیں، یہ سن کر ساس کو غش آنے لگے، جس پر بیٹے کا بہو پر ہاتھ اُٹھ گیا اور اس نے بیوی کو میکے دفع ہونے کا کہہ دیا۔
اور جب وہ اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئی تو اسے زبردستی میکے چھوڑ گیا، اور ماں باپ کو بھی ان کی تربیت پر سو باتیں سنا دیں ۔ اب گھر واپسی کی یہ شرط رکھی گئی کہ اگر میری ماں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگے اور آئندہ منہ بند کر کے رہنا منظور ہو تو واپس آئے گی، ورنہ نہیں ، کیوںکہ اسے دیکھ کر میری ماں کو ڈپریشن ہوتا ہے اور میں اپنی ماں کو دکھ نہیں دے سکتا ،جس پر ماں باپ نے بیٹی کو مجبور کیا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگے اور آئندہ بدتمیزی نہ کرنے کا وعدہ کرلے۔
یہ اس پڑھی لکھی، قابل، سمجھدار ،اعلیٰ عہدے پر فائز اور سلجھی ہوئی لڑکی کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ غلطی نہ ہونے پر بھی اس کو ذلیل کیا گیا اور پھر معافی مانگنے پر مجبور بھی کیا گیا ۔ اس کی خودداری اور عزت نفس کو اس طرح کچلا گیا کہ آئندہ وہ سر ہی نہ اٹھا سکے۔ میں یہ سب سن کر اس سوچ میں گم تھی کہ آج بھی عورت کا یہ حال ہے۔ آخر کب تک اس طرح کی کہانیاں دہرائی جاتی رہیں گی ۔ دنیا اس وقت کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن برصغیر پاک و ہند اور بنگلا دیش میں ہم ساس بہو اور نند کی سازشوں سے نہیں نکل پا رہے۔
اچھی خاصی سلجھی ہوئی لڑکیوں کو انہی سازشوں کی وجہ سے سسرال سے متنفر کیا جاتا ہے ،جس کے نتیجے میں وہ یا تو گھر الگ کرتی ہیں یا سائیکو ہوجاتی ہیں ، یا خود کشی کر لیتی ہیں یا طلاق کی نوبت آجاتی ہے یا وہ بھی اسی ماحول کا حصہ بن کر جوابی سازشیں کرنے لگتی ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو 80 فیصد گھروں میں بہویں مظلوم ہوتی ہیں اور سسرال کے ظلم کا شکار ہوکر ان سے نفرت کرنے لگتی ہیں جب کہ بیس فیصد گھروں میں ساس نندیں مظلوم ہوتی ہیں اور بہویں ظالم ہوتی ہیں۔
یقین نہیں آتا کہ اچھی خاصی ہنستی کھیلتی لڑکیاں دنوں میں مرجھا جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں کیوں کہ اب بھی اگر گھر اُجڑے تو قصوروار عورت ہی ٹہرائی جاتی ہے، اسی لئے لڑکی کے والدین کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ بھلے بیٹی جوتے ، تھپڑ کھا لے لیکن سسرال ہی میں رہے ،چاہے وہ ظلم سہتے سہتے قبر میں چلی جائے۔ ہمیں اب معاشرے کی یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
ہماری بچیاں بھی گوشت پوست کی انسان ہیں جنہیں تھپڑ اور لاتیں کھانے سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور ان کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔ وہ بچی جسے اپنے گھر میں نازوں سے پالا گیا ہو اس کے جسم کے نیل اور مار کھانے کے نشان دیکھ کر والدین آنکھیں چرا لیتے ہیں اور صبر سے اسے گھر بسا نےکی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن ہم ابھی تک( جبکہ لڑکیاں جہاز تک اڑا رہی ہیں) انہی سوچوں میں پھنسے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔
لڑکی الگ گھر کا مطالبہ کرے جو کہ اس کا بنیادی اور شرعی حق ہے تو سیدھا سیدھا اس کی تربیت اور کردار پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں ۔ ساتھ رہے تو زندگی دشوار ۔ بچے ہوجائیں تو بچوں کی خاطر کمپرومائز کرے۔ لڑکی کے والدین یہ سوچ لیں کہ بیٹی کا گھر تو بسا نا ہے لیکن اس پر ظلم اور جبر نہیں ہونے دینا اور ایسا کرنے والوں کو اچھا سبق سکھانا ہے ہی کچھ سدھار ہوسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں طلاق کے خوف سے بیٹی کے والدین منہ سی لیتے ہیں ، جس سے ظالموں کو اور شہہ ملتی ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا کی بدولت پے در پے ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں ،جس میں اچھی خاصی پڑھی لکھی اور باشعور اور اچھے گھرانوں کی لڑکیوں کے ساتھ وہ وہ ظلم ہوئے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ آج کےجدید دور میں بھی ایسا ہورہا ہے ۔خدارا اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ شعور اور اعتماد بھی دیں کہ تمہاری شادی تو ہم کر رہے ہیں لیکن اگر تمہارے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم کیا جائے تو خاموش نہیں رہنا ہم تمہارے پیچھے کھڑے ہیں، اس گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ بیٹیوں سے اپنے پالنے پوسنے کا خراج نہ وصول کریں یہ کہہ کر کہ بس اب رخصت ہو کر جارہی ہو تو اس گھر سے جنازہ ہی نکلے۔
ایسا ہر گز نہ کریں ہاں صبر، برداشت ، حسن سلوک اور اخلاق کا سبق ضرور پڑھائیں ،کہ شوہر کے گھر والوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرو، شادی کے اوائل دنوں میں خاص کر اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ نئے رشتے بنتے ہیں تو ان کو سمجھنے کے لئے کچھ وقت چاہیے ہوتا ہے۔ اس لئے صبر اور دانشمندی سے اس صورتحال کا سامنا کیا جائے لیکن جہاں انسانیت اور برداشت کی کمی ہو اور سمجھنے والے نہ ہوں وہاں اپنا وقت اور اپنی عمر اور اپنی انرجی ضائع کرنا فضول ہے۔ تمام والدین اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی تربیت میں انسانیت ، برداشت، اور رواداری کا سبق ضرور پڑھائیں ، تاکہ دوسرے کی بیٹی آپ کے گھر میں خوش رہ سکے۔
ہم نے ایسے بھی گھرانے دیکھے ہیں جہاں بہوؤں کو واقعی بیٹیوں کی طرح رکھا جاتا ہے اور ان کو ویسی ہی عزت اور محبت دی جاتی ہے جیسی ان کومیکے میں ملتی تھی ۔ جواب میں بہویں بھی اپنا فرض بخوبی نبھاتی ہیں اور خوش و خرم ہیں لیکن یہ تعداد آ ٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس قسم کی پریکٹس کو عام کرنا ضروری ہے، تاکہ لڑکیاں شادی کے نام سے خوفزدہ نہ ہوں اور لڑکے بھی یہ سمجھیں کہ شادی صرف جی کا جنجال نہیں ہے بلکہ ایک خوبصورت بندھن اور ذمہ داری ہے۔ اللہ ہمارے معاشرے میں دین کا شعور اور فہم عطا کرے ،تاکہ ہم سب اپنے حقوق وفرائض کو پہچان کر ایک دوسرے کے لیے آ سانی پیدا کرسکیں۔
جزاکہ الله خیر 🌹🌹
3 - 0
#copied
آپ نے جوائنٹ فیملی کا سارا burden اپنے کاندھوں پہ لیا ہوا ہے۔۔۔۔
آپ نے اپنے بچے کو چھ مہینے کا ہی potty trained کرلیا۔۔۔۔
آپ نے بچوں کو پڑھا پڑھا کے اے پلس گریڈ کمپیوٹر بنا ڈالا ہے۔۔۔
آپکا کچن ہر وقت لشکارے مارتا ہے اور فریج ہوم میڈ چیزوں سے بھرا ہوتا ہے۔۔۔
آپ خود پہ خرچ نہیں کرتیں اور saving کرتی ہیں۔۔۔
آپ ورکنگ لیڈی ہیں اور گھر، بچے شوہر، سسرال کو جاب کے ساتھ مینیج کرتی ہیں۔۔۔
لوگ کیا کہیں گے کی خاطر آپ اپنا من مار کر زندگی گھسیٹ رہی ہیں تو یقین جانیں یہ ساری ریاضت رائیگاں ہے!! کوئی ایوارڈ نہیں ملتا اس خواری کا
یہ جو آج ہے یہی زندگی ہے، یہ وقت واپس نہیں آئے گا۔۔۔
اس وقت کو جینا لازم ہے!!!
مت بھاگیں پرفیکشن کے پیچھے، انسان پرفیکشن کے لئے بنا ہی نہیں ہے چاہے جتنا بھی کرلیں کہیں نہ کہیں کمی کوتاہی ہوجانی ہے اور ساری محنت پہ پانی پھیرنے والے لوگ گویا اسی موقعے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔۔۔۔
تو پھر خود کو ہلکان کرنے کا فائدہ؟
بس اتنا ہی کریں جتنا آسانی سے کرسکیں، خود کو space دیں، ریلیکس کریں۔۔۔ نیگیٹو باتوں پر سوچ سوچ کر ہائپر ہونے کے بجائے اگنور کریں اور مسکرائیں۔۔۔۔
جن رویوں پر رونا آتا ہے ان پر کھلکھلائیں
زندگی خوبصورت ہے!!!
1 - 0
جب کوئی عورت نئی ماں بنتی ہے تو وہ جسمانی اور جذباتی طور پر بہت نازک حالت میں ہوتی ہے۔ اس وقت میں اس کی مدد اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ تنقید یا غیر ضروری مشورے۔ یہاں کچھ اہم باتیں ہیں جو ہر شخص کو مدنظر رکھنی چاہئیں:
1. مدد کریں، بوجھ نہ بنیں: اگر آپ اس نئی ماں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اسے ضرورت کے مطابق حقیقی مدد فراہم کریں، جیسے کہ اس کے لیے سوپ بنانا، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، یا جو چیزیں اس کے پاس نہیں ہیں وہ خریدنا۔
2. تنقید سے پرہیز کریں: نئی ماں پر تنقید کرنا یا اسے یہ کہنا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھا نہیں رہی، نہایت ہی غیر مناسب رویہ ہے۔ اس کی بجائے اسے مثبت انداز میں حوصلہ دیں۔
3. نامناسب تبصرے نہ کریں: مثلاً یہ کہنا کہ بچہ ماں کی طرح کیوں نہیں دکھتا یا اس کا وزن کیوں کم نہیں ہو رہا، بالکل غیر ضروری اور نامناسب باتیں ہیں۔
4. دوسرے بچوں سے تقابل نہ کریں: بڑے بچوں کو چھوٹے بچوں کے ساتھ تقابل کرنا ان کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے اور انہیں کمزور محسوس کرا سکتا ہے۔
5. نوزائیدہ بچوں کا خیال رکھیں: بچوں کو وائرس اور بیماریوں سے بچانے کے لیے بہتر ہے کہ لوگوں کو بچے کو چومنے یا غیر ضروری طور پر پکڑنے سے روکا جائے۔
6. خود کو بہتر بنائیں: جو لوگ دل میں نرم دلی اور حنیت نہیں رکھتے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی کے مشکل وقت میں نرم رویہ اختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔
7. بدتمیز تبصرے سے بچیں: مثال کے طور پر، یہ کہنا کہ نئی ماں کے وزن یا ظاہری حالت کی وجہ سے شوہر اس سے دور ہو سکتا ہے، نہایت ہی غیر مناسب اور نقصان دہ باتیں ہیں۔
آخر میں، ہر ایک کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک اچھی اور ہمدردانہ بات کتنی طاقتور ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہے۔ اس نازک وقت میں ایک نئی ماں کو حوصلہ دینے اور مدد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ غیر ضروری مشورے اور تنقید۔
کلمات مہربانی سے بڑی نیکی ہوتی ہے۔
1 - 0
دوسروں کے جملوں پر افسردہ ہو کر آپ نے زندگی کے کئی خوب صورت لمحے ضائع کر دیے۔
جینا سیکھیں زندگی بہت چھوٹی ہے لوگوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں
آپ بہت اہم ہیں بلکہ بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں لہٰذا اپنی خوشی کو ایسے انجوائے کریں جیسے اس دنیا میں آپ سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہے۔
اگر آپ کسی تکلیف یا پریشانی میں مبتلا ہیں تو تنہائی کی چادر اوڑھ کر سو جائیں یا پھر غموں کے آنسوؤں کا دریا بہا دیں لیکن جوں ہی کسی محفل میں شریک ہوں تو دیکھنے والے آپ کو دیکھتے رہ جائیں کہ آپ سے زیادہ مطمئن اور خوش کوئی نہیں یعنی غم خود تک رکھیں اور دوسروں تک وہ پہنچائیں جس کے بعد آپ کو ترس کی نگاہوں سے نہ دیکھا جائے۔۔۔
زندگی بہت خوب صورت ہے۔ مجھے ہر ایسے شخص پر افسوس ہوتا ہے جو زندگی کی خوبصورتی محسوس کرنے کی بجائے ایسے لوگوں کو جواب دینے لگے جو در اصل خود کے لیے بھی ٹاکسک ہوتے ہیں۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ آپ جہاں خوش ہیں وہاں خوش رہیں جہاں سے حسد،جلن کی بو آتی ہے وہاں سے کوسوں دور نکل جائیں۔ اپنی فرینڈ لسٹ اور زندگی میں سکون چاہتے ہیں تو تنقیدی لوگوں کو باقی رہنے دیں لیکن منفی سوچ کے حامل اور بدتمیز لوگوں سے فاصلہ اختیار کر لیجیے۔ کیونکہ آپ کا اپنا سکون اول نمبر پر ہے ۔۔
1 - 0
کوئی بھی ڈاکٹر وہ ٹانگ سیدھی نہیں کر سکتا
جو رشتےدار ہمارے معاملات میں اڑاتے ہیں
خیر چاۓ پیو زندگی جیو😂🤣🤣😂
1 - 0
آج سب اپنی مرضی سے کچھ سنا دیں......
کوئی لطیفہ ، شاعری , ......
کوئی اچھی سی بات......
یا پھر دل کی بھڑاس .....🙂🥀
0 - 0
پاکستان گاڑیوں ٹرکوں وغیرہ پر لکھے گئے الفاظ میں سے آج تک کے قیمتی جملے
👇👇👇
پھول سی بیٹی بھی لے لیتے ہو
جہیز بھی لے لیتے ہو، خدمتیں بھی کرواتے ہو، پھر زلیل بھی کرتے ہو💔
1 - 0
Assalam alaikum, Beauty Secrets, Beauty tips, Fashion, style, Dress IDEAS, Trends, Makeup, Product Reviews, Health, Kids Care,