Channel Avatar

Natural Greenography @UCS-WGPiFg-TOkiRmlM21R6A@youtube.com

1.6K subscribers - no pronouns :c

Natural Greenography Travel, Tours & Gardening aimed at


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Natural Greenography
Posted 1 year ago

2 - 0

Natural Greenography
Posted 1 year ago

*#وادی_کمراٹ*
*#Kumrat_Valley*

پاکستان کی سیاحت میں کمراٹ ویلی کا اضافہ بہت ہی خوش آئند ہے، کچھ عرصہ سے یہ وادی ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی آنکھوں اور دل میں سمائی ہوئی ہے، آج ہم کچھ احوال اس وادی کا لیتے ہیں اورچلتے ہیں اپردیر کے کچھ سیاحتی مقامات پہ ،
کمراٹ کا نام سنتے ہی لوگ پوچھتے ہیں کہ کمراٹ کہاں ہے، یہ اپردیر کی ایک ننھی مگر انتہائی خوبصورت وادی ہے جس کے چرنوں میں سفید دودھیا پانی والا دریائے پنجکوڑہ بہتا ہے اور دیودار کے اونچے لمبے اشجار اسکے ماتھے کا جھومر ہیں، سوال یہ ہے کہ کمراٹ کیسے پہنچا جائے، اسکے لیے دو رستے مستعمل ہیں، ایک رستہ سوات کے خوبصورت مقام کالام سے اتروڑ اور پھر باڈگوئی ٹاپ سے ہوتے ہوئے تھل تک جاتا ہے اور تھل سے آپ کمراٹ میں داخل ہوتے ہیں، یہ رستہ فوربائی فور گاڑیوں کےلیے مناسب ہے جبکہ عام گاڑیوں سے جانے کےلیے آپ اسلام آباد سے پشاور موٹروے پہ سفر کرتے ہیں پھر وہاں سے سوات موٹروے پہ ہوتے ہوئے چکدرہ پہ اترتے ہیں وہاں سے تیمرہ گرہ سے گزر کر دیر پہنچتے ہیں، دیر سے آپکو باب کمراٹ سے داخل ہوکر تھل کا سفر کرنا ہوتا ہے، یہ سفر تین سے چار گھنٹے پہ مشتمل ہوتا ہے، اور یوں آپ تھل بازار پہنچتے ہیں، تھل ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں دریائے پنجکوڑہ اس قصبہ کے بیج میں سے گزرتا ہوا دلکش نظارہ دیتا ہے، چھینٹے اڑتے زور آور دریا میں سے لکڑی کے تخت سے تیار نہریں نکال کر آب پاشی اور بجلی پیدا کرنے کے مقاصد پورے کیے جاتےہیں، تھل میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز صدیوں پرانی جامع مسجد دارالسلام ہے جو پل سے پہلے ہی آپ کو خوش آمدید کہتی ہے، یہ مسجد ساری کی ساری لکڑی سے بنائی گئی ہے کاریگروں کی کاریگری سے علاقہ کی ثقافت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے، یہاں سے دو رستے ہیں ایک تھل سے بائیں ہاتھ کمراٹ کی طرف جاتا ہے جبکہ ایک دائیں ہاتھ لاموتی سے ہوتا ہوا جندرئی ویلی کی طرف جاتا ہے، لاموتی ہی سے ایک رستہ سوات اور دیر کو ملانے والے درہ باڈگوئی کی طرف نکلتا ہے،
ہم پہلے کمراٹ کا رخ کرتے ہیں، تھل سے نکلتے ہی بیس منٹ بعد آپ کو کمراٹ کی خوبصورتی کا عکس اپنی آغوش میں لینا شروع ہوجاتا ہے، ہریاول سے لدی پہاڑیاں بائیں ہاتھ دیودار کا ممتا جیسا احساس لیے ہوئے جنگل اور اسکے قدموں میں بہتا دریائے پنجکوڑہ ایک خاص کشش رکھتا ہے، جہاں رہائش کےلیے بے شمار خیمے لگے ہوئے ہوتے ہیں اسکے علاوہ بڑی تعداد میں ہوٹل بھی بن رہے ہیں، تھل سے پندرہ کلومیٹر کے بعد آپ کمراٹ میں پہنچتے ہیں اسکے لیے آپ کو فور بائی فور گاڑی پہ 45 منٹ لگتے ہیں، کمراٹ سے دائیں جانب پیدل دس منٹ کی مسافت پہ کمراٹ آبشار بھی آپ کی منتظر ہے، جس کے پانیوں کی سفید لٹکتی پھواریں آپ کو ورطہءِ حیرت میں ڈال دیتی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسی کوئی دوشیزہ اپنی زلفوں کو کھولے اور انہیں کاندھے پہ لٹکا کر جلوہ رکھا رہی ہو، اسکے پانیوں کی سرسراہٹ کانوں کو بھاتی اور روح کو تازہ کرتی ہے، کمراٹ سے دس کلومیٹر آگے مزید جائیں تو کالاچشمہ نامی جگہ آتی ہے، یہاں مناظر خوبصورت ہیں، لیکن کالاچشمہ نامی چشمہ والی بات کوئی خاص نہیں، یہاں پہ کیمپنگ کی جاسکتی ہے اوت سہولت بھی میسر ہے اس سے مزید بارہ کلومیٹر کی مسافت پہ دوجنگہ ہے یہاں بھی کیمپنگ کی جاسکتی ہے، اگر اپنا کیمپ نہیں تو پریشان نہ ہوں یہاں بھی کیمپنگ سائٹ موجود ہے ، دیسی اور روایتی سے واش روم کی سہولت میسر ہے، دوجنگہ آبادی سے دور بہت ہی لاجواب جگہ ہے کچھ منٹ کی ٹریکنگ کے بعد دو ندیاں آکر بغل ہوتی ہیں، ایک ندی کونڈل جھیل سے آتی ہے جبکہ ایک شہ زور جھیل سے آتی ہے، اسی لیے اسے دوجنگہ کہا جاتا ہے، شہ زور کا ٹریک چار سے پانچ گھنٹے کا ہے، جس کے رستے میں چاروٹ، ایزگلو، گورشئی اور شہ زور بانڈہ جیسی خوبصورت ترین چراگاہیں آتی ہیں آپ یہاں صرف اپنا کیمپ کرسکتے ہیں،
اب واپس تھل آئیں اور چلتے ہیں جندرئی ویلی کی جانب، تھل بازار سے دائیں طرف لاموتی ہے جہاں سے ایک جیپ ٹریک آپکو جندرئی کی طرف لے جاتا ہے، جندرئی اپردیر کا خوب صورت گاوں ہے، جہاں چلغوزے اور اخروٹ کے درخت بھی ملتے ہیں، یہاں تاج محمد نامی بندے کا بنایا عجائب گھر بھی ہے جس میں مختلف نوادرات رکھے گئے ہیں، ایک ہی چھت تلے آپ صدیوں پرانی تہذیب کو ایک ساتھ دیکھ سکتے ہیں، جندرئی سے ایک پیدل ٹریک جہازبانڈہ کی طرف جاتا ہے، یہ لگ بھگ بارہ سے چوددہ کلومیٹر کا پیدل ٹریک ہے، اگر آپ جیپ پہ ہیں تو آگے چلیے، جندرئی سےآگے گام سیری اور گام سیری سے جنگل کی چڑھائی شروع ہوتی ہے، اورآپ ٹکی ٹاپ پہنچ جاتے ہیں، جندرئی سے ٹکی ٹاپ تک آپ کو آٹھ کلومیٹر سفر طے کرنا ہوتا ہے، یہ سفر ایک گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے، اس سارے رستے میں ٹکی ٹاپ سے کچھ پہلے تک جندرئی دریا آپکے ساتھ ساتھ رہتا ہے، ٹکی ٹاپ سے آپ کے پاس دو آپشن ہیں اگر پیدل چلیں تو دو سے تین گھنٹے میں جہاز بانڈہ پہنچ سکتے ہیں اس سفر کا زیادہ تر حصہ جنگل کے اندر سے طے ہوتا ہے اور بہت ہی یادگار رہتا ہے جہاں قدرت کی رعنائیاں قدم قدم پہ آپ کا استقبال کرتی ہیں، اگر آپ چل نہیں سکتے تو گھوڑے پہ بیٹھیے اور قدرت کی سرگوشیوں کو محسوس کرتے جہاز بانڈہ پہنچ جائیں، جہاز بانڈہ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع صحت افزا سیاحتی مقام ہے، جہازبانڈہ میں ہوٹلوں کی بہتات ہے، جہاں تاحال ٹیلی نار کے سگنل آتے ہیں، جہازبانڈہ کے ساتھ ہی ایک اور چھوٹی سی چراگاہ بینڑھ بانڈہ ہے وہاں بھی ہوٹل موجود ہیں، یہ میری پسندیدہ جگہ ہے یہاں رات قیام کریں اور اگلی صبح آپ کٹورہ جھیل کا ٹریک کریں، کہا جاتا ہے کہ دیر کی سب سے بڑی جھیل کٹورہ ہی ہے اسکا پرانا نام گھان سر ہے، اس کا ٹریک دو سے تین گھنٹوں کا ہے، جھیل پہ پہنچ کر آپ قدرت کے حسین نظاروں میں کھو جاتے ہیں، پہاڑوں کے ماتھے پہ برف کے تودوں اور پھر ان سفید تودوں کا عکس پانی کو اور بھی خوبصورت اور طرب انگیز بناتا ہے،
یہاں کشتی رانی کی سہولت ہے جوکہ نہیں ہونی چاہیے، راستے میں ایک چھوٹا کٹورہ جھیل بھی آتی ہے، کٹورہ جھیل کا زیادہ تر ٹریک پتھریلا ہے، جہاز بانڈہ کے ساتھ ہی
ایک اور خوبصورت مقام کونڈ بانڈہ ہے،
جہاں ناگن ندی کے کنارے رات گزارنے سے آپ اپنی روح کو تروتازہ کرلیتے ہیں، کنڈ آبشار کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے چہرے پہ اسکی پھوار ڈالنے سے ایک عجیب احساس جنم لیتا ہے، یہاں پہ بھی ٹینٹ ہوٹل میسر ہیں، بس جائیں ضرور لیکن صفائی کا خیال رکھیں کیونکہ آج کی صاف ستھری سیاحت کل کے روشن پاکستان کی ضمانت ہے،
دعاوں میں یاد رکھیں
*UTC: Natural Greenography*
*ٹورازم پروموٹر ان پاکستان*

1 - 0

Natural Greenography
Posted 1 year ago

سیاحوں کے لئے اچھی خبر۔
چلاس کی طرف سے بابوسر ٹاپ تک برف ہٹا دیا گیا تاہم ناران کی طرف سے مزید دو سے تین دن کا کام باقی رہ گیا ہے۔

2 - 0

Natural Greenography
Posted 1 year ago

گھنٹہ گھر۔ فیصل آباد

یہ عمارت برطانوی راج کے دور سے اپنی اصل حالت میں برقرار ہے۔ اس کی بنیاد 14 نومبر 1903ء کو پنجاب کے اس وقت کے انگریز گورنر سر چارلس ریواز (Sir Charles Riwaz) نے رکھی۔ یہ آٹھ بازاروں (بھوانہ بازار، جھنگ بازار، کارخانہ بازار، کچہری بازار، منٹگمری بازار، ریل بازار، چنیوٹ بازار اور امین پورہ بازار) کے درمیان واقع ہے۔
ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیے جانے والے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کو بنانے کی تجویز اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر جھنگ، کیپٹن بیک، نے دی تھی جبکہ اس کا ڈیزائن سر گنگا رام کی تخلیق ہے۔ اس گھنٹہ گھر کی تعمیر 15دسمبر 1905ء کو مکمل ہوئی۔
تعمیر کے وقت اس جگہ ایک کنواں واقع تھا جسے پانچ کلومیٹر دور سرگودھا روڈ پر واقع چک رام دیوالی سے لائی گئی مٹی سے اچھی طرح بھرا گیا، جس کے بعد اس کی تعمیر شروع کی گئی۔
گھنٹہ گھر کی عمارت میں استعمال ہونے والا لال پتھر پچاس کلومیٹر کی دوری پر واقع سانگلہ ہل کی ایک پہاڑی سے لایا گیا تھا اور اس کے معمار گلاب خان تھے۔
چارمنزلوں پر مشتمل اس عمارت کی کل اونچائی تقریباً 100فٹ ہے جبکہ اندر کی طرف ہر منزل پر پہچنے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں.

1 - 0

Natural Greenography
Posted 1 year ago

گوادر ٹور
زیرو پوانٹ سے پہلا پوانٹ جو دیکھنے کیلیے آتا ہے وہ مڈ والکینو ہے جسے ہندو کیمونٹی چندر گپت کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔۔۔یہاں سے آگے بھی کچھ پوانٹ ہے لیکن ہم یہی دیکھ کر واپس مکران کوسٹل ہائی وے پر آگئے ۔۔
روڈ سے تقریباً آپکو 10 کلومیٹر اندر جانا پڑتا ہے جہاں
دنیا کے گنے چنے علاقوں میں ایسے مَڈ والکینو دریافت ہوئے ہیں جن میں سے ایک بلوچستان بھی ہے۔ بلوچستان میں ان کے دو پہاڑی سلسلے ہیں، جن میں سے ایک چندرا گپ اور دوسرا جبل غورب کہلاتا ہے اور اس میں سات کیچڑ فشاں ہیں۔
تھی۔ یہ بلوچستان کی وادی ہنگلاج میں ہندوؤں کے اہم ترین مقامات میں سے ایک “نانی مندر” یا ہنگلاج ماتا مندر کے قریب ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک انتہائی قدیمی مندر ہے اور ہزاروں یاتری یہاں سالانہ میلے میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ چندرا گپ پر چڑھائی اس یاترا کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کے بغیر یاترا مکمل نہیں ہوتی۔ شدید گرمی میں 330 فٹ اونچے پہاڑ کی چڑھائی ہندو یاتریوں کے لئے ایک دشوار ترین عمل تھا لہذا ان کی آسانی کے لیے اب یہاں سیڑھیاں بنا دی گئی ہی

1 - 0

Natural Greenography
Posted 1 year ago

رائتہ چرائتہ
یہ ایک جڑی بوٹی ہے جو چہرے پر دانے وغیرہ ختم کرنے والی دواؤں میں استعمال ہوتی ہے۔

3 - 0

Natural Greenography
Posted 2 years ago

Sunflower

8 - 0

Natural Greenography
Posted 2 years ago

بھیرہ
بھیرہ سرگودھا ڈویژن ضلع سرگودھا کی تحصیل سرگودھا سے 57 کلو میٹر لاہور سے 207 اور اسلام آباد سے 183 کلو میٹر پہ واقع ہے
بالکل یہ وہی سرزمین ہے جس میں راجہ پورس نے اپنے قدآور ہاتھیوں کی مدد سے اسکندر اعظم کے خلاف شدید مزاحمت کی اور اس کا سدباب کرنے کے لیے اسکندر اعظم نے راجہ پورس کے ہاتھیوں کی سونڈھوں کا اپنے پیادہ اور تیر انداز فوج کے ذریعے انتہائی مہارت سے کروایا اور وہ ہاتھی راجہ پورس کی پہ فوج پہ چڑھ دوڑے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا سکندر اعظم کا مشہور گھوڑا بھی اسی جنگ میں مارا گیا مگر سکندر اعظم نے راجہ پورس کی بہادری کو سراہتے ہوئے اس کا علاقہ واپس کیا۔ پنجاب کے علاقے سے یہ اپنی نوعیت کی کسی بھی حملہ آور کے خلاف پہلی مزاحمت تھی جسے تاریخ دانوں نے نمایاں مقام دیا۔ اس کے بعد حملہ آوروں اور تاجروں کا تانتا بندھا رہا 1519ء میں ظہیر الدین بابر 1757ء میں احمد شاہ درانی ، شیر شاہ سوری ، محمود غزنوی اور دیگر آ تے رہے پھر رنجیت سنگھ سے ہوتا ہوا برطانوی راج کے سپرد ہوا۔ بار بار حملوں کی زد میں آنا اور اس خاص بھروچی تہذیب کو ملیامیٹ کیا جاتا رہا ۔ ان تباہی کاریوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر اس شہر کو دریائے جہلم کے مغربی کنارے سے مشرق کی جانب لا کر از سر نو بسایا گیا جس کا سہرہ شیر شاہ سوری کو جاتا ہے اس نے سڑکوں کے جال ، مینارے، بلند فصیلوں میں آٹھ دروازے لگا کے محفوظ بنادیا ۔ جن کی تفصیل سے کچھ دیر میں آپ آ گاہ ہوں گے۔
بھیرہ کا قدیم نام چوب ناتھ نگر بھی رہا ہے ۔اسکی آبادی 3 لاکھ 10 ہزار سے زائد ہے جس میں ڈھائی لاکھ سے اوپر دیہی جبکہ 60 ہزار سے زائد شہری زندگی میں موجود ہے۔ کل 504 مربع کیلومیٹر پہ محیط یہ تحصیل 110 گاؤں اور 16 یونین کونسلوں پہ مشتمل ہے۔ 17 جولائی 2012ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اسے تحصیل کا درجہ دیا ۔
بھیرہ کو تاریخی ، معاشرتی اور ثقافت کے لحاظ سے بین الاقوامی سطح تک اہمیت حاصل ہے جس پہ کافی تحقیق ہو بھی چکی ہے مگر بہت زیادہ کی گنجائش ابھی تک باقی ہے ۔ بھروچی تہذیب کی طویل داستان ہے جسے کئی سال گزر جائیں گے بیان کرتے ہوئے مگر اس دھاک اپنی جگہ قائم ہے۔ تاریخ میں اس علاقے کو گزرگاہ اور تجارت کے مرکز کی بنا پہ نمایاں حیثیت دی جاتی تھی۔ بھیرہ لکڑی کے کام، تعمیراتی مواد اور طرز ، مہندی کی وجہ سے شروع سے مشہور رہا پھر رنجیت سنگھ کے دور میں یہاں ٹکسالی کا قیام عمل میں آیا اور سونے اور چاندی کے سکے تیار کیے جاتے رہے۔ اس شہر میں آٹھ دروازے جو کہ مختلف سمتوں میں واقع شہروں یا علاقوں کے نام پہ رکھے گئے جیسے لاہوری دروازہ ، کشمیری ( چٹی پلی ) دروازہ، ملتانی (لالو والی) دروازہ، چنیوٹی (چک والا) دروازہ، کابلی دروازہ، پیراں والا، لوہاراں والا ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خستہ حال ہوتے گئے لیکن ملکہ وکٹوریہ کے دور میں ڈپٹی کمشنر کلفٹن ڈیوس کی سرپرستی میں مقامی ماہر تعمیرات دھر چند کوہلی کی مدد سے انکی از سرِ نو تعمیر ہوئی۔ مگر پھر آبادی میں نمو کی بدولت اور غفلت کا شکار ہونے کی وجہ سے صرف چار دروازوں کے آثار ہی باقی ہیں ۔ اسی طرح اس میں ذاتوں کی بنیاد پہ محلوں کے نام رکھے گئے ہیں جن میں محلہ پراچگان، محلہ خواجگان ، محلہ سیٹھیاں، محلہ انصاری اور محلہ کوہلیاں والا سمیت دیگر موجود ہیں ۔ اس کے علاؤہ یہاں کافی قدیمی حویلیاں بھی موجود ہیں جو اپنے اپنے دور کی طرز تعمیر کا ثبوت ہیں۔ ان میں نہایت دلکش لکڑی کا کام دروازوں، کھڑکیوں اور بالکنیوں میں دیکھا جاسکتا ہے جو عمارتوں کو پر شکوہ بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ آنکھیں مکمل یکسوئی کے ساتھ اس بہترین مہارت کے ساتھ کیے گئے کام پہ مرکوز ہو جاتی ہیں ۔ اور دیکھنے والے اس دور کے اندر چلے جاتے ہیں ۔ سرخ مٹی، چھوٹی اینٹوں اور چونے کے ساتھ ساتھ دیدہ زیب رنگوں سے نہایت دلجمعی کام کیا گیا بھیرہ میں چونکہ مسلمان ، ہندو اور سکھ رہائش پذیر تھے تو اس وجہ سے ان مزاہب کی عبادت گاہیں بھی کافی تعداد میں تعمیر ہوئی۔ جن مین جامعہ مسجد شیر شاہ سوری 1545 ء میں جس کی بنیاد رکھی گئی جو 2976 مربع فٹ کے احاطے پہ محیط ہے۔ اس میں 60 فٹ کی اونچائی پہ تین گنبد مینار اور 18 سے 28 فٹ تک کی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں ۔ مسجد کے ساتھ میوزیم اور تحقیقی مرکز بھی قائم ہے جو محقیقین اور طلباء کے لیے بھیرہ کی تاریخ کے شواہد کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔1840ء میں ایک اور مسجد تعمیر کی گئی۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کے چار مندر اور سکھوں کا ایک گوردوارہ باقی رہا جو بعد ازاں امامبارگاہ میں منتقل ہو گیا۔ ہندوؤں کی عبادتگاہ میں شیو ساتھن، شیو لنگ, جیا کرشیاں،شیوا مندر ناگیاں والا، چوپڑا خاندان کا باولی والا مندر موجود تھا جبکہ سکھوں کا چھٹیا گردوارہ بھی ان میں شامل تھا۔
1881ء میں تجارت کی خاطر بھیرہ میں ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا تھا لیکن اب وہ نہایت خستہ حالی میں موجود ہے جسے از سر نو تعمیر کر کے اس تہذیب کے گہوارے کو دینا تک متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سر جارج اینڈرسن کے ہاتھوں 2 اپریل 1927ء میں گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو بہت ہی دلکش عمارت ہے۔
بھیرہ کی گلیاں اور دروازے اس میں چلنے والے کو دور قدیم میں لے جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ قدیم بھیرہ اب ضلع جہلم میں جبکہ بعد میں 1540ء میں بسایا جانے والا شہر دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر ضلع سرگودھا میں واقع ہے۔
بھیرہ میں موجود میانی کے علاقہ میں مشہور حویلی کرشن نواس کی حویلی نہایت دیدہ زیب طرز تعمیر سے مزین ، علاقے کی پہچان ہے۔ 1947 ء میں بھیرہ سے ہندوستان جانے والے وہاں کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور بھیرہ کو آج بھی اک خاص مقام حاصل ہے ۔ بھیرہ میں جامعہ غوثیہ بھیرہ شریف ہے جو علم و دانش کے فروغ میں مثالی کردار ادا کر رہی ہے۔ بھیرہ کی تاریخی طور پہ اہمیت کو تاریخی حوالہ جات کے طور پہ الیگزینڈر کنگھم کی کتاب Ancient Geography of India, چینی زائر فی شان کا 2ہزار سال قبل بھیرہ کا ذکر، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا اپنی کتاب تزک بابری میں ، یونانی تاریخ دان آریان اور جان برگز کا فرشتے میں بھیرہ کا نمایاں طور پہ ذکر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چند چیزیں قلیل وقت میں احاطہ کی جاسکتی تھیں وگرنہ اسکی تاریخ اور تمدن پہ لا محدود وقت چاہیے۔ لاہور والڈ سٹی کی طرح اگر اس خطے پہ کام کیا جائے تو اس علاقے کی ترقی اور اس متروکہ تہذیب کو دنیائے عالم میں متعارف کروایا جاسکتا ہے اور بین الاقوامی سیاحت کے لیے زبردست مقام بنایا جاسکتا ہے.
Natural Greenography

3 - 0

Natural Greenography
Posted 2 years ago

Bottlebrush Plants
Bottlebrush seeds are best when they are fresh. You can sow seeds directly into your garden soil, or germinate them in a smaller pot to be transplanted into larger pots later on. Prepare your soil by loosening it a few inches deep, then thoroughly moisten the top. Make sure your planting area has good drainage.

10 - 0

Natural Greenography
Posted 2 years ago

لیپہ ویلی کے بارےمیں معلومات - پارٹ ٹو
آبادی: 80ہزار
زبان: ہندکو، کشمیری، اُردو
کھیل: کرکٹ
کاشتکاری: اخروٹ، مکئی، چاول
مکئی زیادہ اس کےبعد چاول کی کاشت کے لیے کھیتوں کو بہت خوبصورتی سے کاٹا گیا ہے چاول بہت مشہور اور لزیز ہیں
وادی کے اطراف کے پہاڑ سارا سال برف سے ڈھکے رہتے یہ وادی جموں و کشمیر کو الگ کرتی
یہ 3 اطراف سے جموں کے اضلاع (بارہ مولیٰ، پلوامہ، کپواڑہ، سوپور) میں گھری ہوئی، یہ LOC بارڈر پہ واقع 60KM طویل بارڈر پے
تقریباً 3ماہ زمینی رابطہ منقطع رہتا ہے
گورنمنٹ آف کشمیر کی طرف سے اجازت نہیں کہ کشمیر کے علاوہ لوگ وہاں گھر لے سکیں یابنا سکیں،

اس وادی کے پوائنٹس
1) ریشیاں گاؤں بلندی
1674M/5492F

2) داؤ خان بلندی
2490M/8170F
لیپہ
3) برتھ وار گلی/Top بلندی
3200M/10,500F
4) چنیان بلندی
2226M/7302F

مظفر آباد جو آزاد کشمیر کا دارالحکومت ہے وہاں سے لیپہ ویلی اور نیلم ویلی کا رستہ نکلتا ہے دونوں وادیاں جنت نظیر ہیں

لیپہ ویلی:
مظفر آباد سے براستہ
گڑھی دوپٹہ (24KM)
پھر (20KM) کے بعد ہٹیاں بالا ہے جہاں سےسیدھی سڑک سری نگر جاتی جسے شاہراہِ سری نگر کہتے ہیں
جبکہ نیچے کو *نیلی/نیالی پُل* جو دریائے جہلم کے اُوپر ہے وہاں سے گُز کے لیپہ کو جاتے ہیں یہ پُل پار کرتے ہی سگنل ختم ہوجائیں گے، اس پُل سے لیپہ 58KM ہے
ہٹیاں بالا (یہ تحصیل و ضلع ہے) لیپہ کے لوگ 3ماہ جب رابطہ منقطع رہتا ہٹیاں بالا بھی نہیں پہنچ پاتے،
ہٹیاں بالا سے براستہ لمیاں گاؤں اور وہاں سے ریشیاں گاؤں جانا ہے
(ہٹیاں بالا سے ریشیاں گاؤں 30KM جو 1گھنٹہ میں طے ہوگا)
(مظفر آباد سے ریشیاں 67KM)
یہاں سے ہی سب اشیائے خوردونوش خریدنی ہیں آگے رستے میں کوئی دکان نہیں ملے گی یہاں سے کشمیری کُلچہ ضرور کھائیں یہ یہاں کی سوغات ہے
ریشیاں سے آگے کار نہیں جائے گی کیونکہ رستہ بہت خراب، بازار سے جیپ کروانی پڑتی جو تقریباً 400 روپے کرایہ ہے جو لیپہ تک لے کے جاتی، ریشیاں سے لیپہ 30KM ہے جو 3گھنٹے میں طے ہوتا اس رستہ میں تقریباً 72U-Turnآتےہیں
ریشیاں سے نکلتے ہی چیک پوسٹ ہے اور آگے مزید 2 چیک پوسٹ پہ انٹری ہوگی
ریشیاں پہاڑ کی اُترائی اُترنے سےنیچے پہنچنے پہ لیپہ شروع ہوجاتی

ریشیاں سے داؤ خان 4KM ہے رات رُکنے کے لیے یہ ریشیاں سے زیادہ بہتر جگہ ہے پُرسکون جگہ، داؤخان میں سرکاری گیسٹ ہاؤس کی بکنگ مظفر آباد سے ہوتی ہے
(مظفر آباد سے داؤ خان 75KM)
داؤ خان سے آپ لیپہ جائیں گے اور
لیپہ ویلی کے
چاننیاں/چننیاں گاؤں
نکوٹ گاؤں
کھیواڑہ گاؤں
مٹہ کنڈی گاؤں
لیپہ بازار
دیکھیں گے

NEXT Day
ہٹیاں بالا سے سیدھا سری نگر روڈ پہ 7KM بعد چناری ہے اور پھر 8KM بعد چکوٹھی وہاں چھمب آبشار
وہ دیکھ کے واپس،
چکوٹھی سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے،
پھر ہٹیاں بالا سے سُدھن گلی کو بائیں جانب مُڑنا جدھر 5KM بعد چکار اور 13KM بعد سُدھن گلی ہے
سُدھن گلی سے7KM کا رستہ جو صرف گنگا چوٹی (کلمہ چوٹی) کو جاتا وہ پہاڑ کی Hicking کریں، اور واپسی رات سُدھن گلی ہی رُک جائیں
NEXT DAY
سُدھن سے 25KMضلع باغ وہاں سے 15KM لس ڈنہ، پھر 58KM حویلی، پھر فارورڈ کہوٹہ اور وہاں سے 41KM ھجیرہ سے
(باغ سے ھجیرہ تک C Shape بنتی)
پھر بنجوسہ لیک 9KMجواوپر باغ کو رستہ جاتاوہاں ہے اور اسکے آگے
20KM تولی پیر
پھر رات راولا کوٹ رُکیں

6 - 0