Channel Avatar

Learn Urdu Zaban @UCPfIh7c45qiPhZGsqDIjVXw@youtube.com

15K subscribers - no pronouns :c

This channel is dedicated for those who want to learn Urdu l


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Learn Urdu Zaban
Posted 1 day ago

ان میں سے کون سا فیض احمد فیض کا شعری مجموعہ نہیں ہے؟

233 - 6

Learn Urdu Zaban
Posted 1 day ago

"باون پتے " کس کے افسانوں کا مجموعہ ہے؟

54 - 2

Learn Urdu Zaban
Posted 1 day ago

ان میں سے کون سی خود نوشت سوانح عمری اختر الایمان کی ہے؟

46 - 1

Learn Urdu Zaban
Posted 1 day ago

"ہم نفسان رفتہ " صنفی اعتبار سے کیا ہے؟

87 - 2

Learn Urdu Zaban
Posted 1 day ago

ان میں سے کون سی کتاب غالب کے اردو خطوط پر مشتمل ہے؟

86 - 1

Learn Urdu Zaban
Posted 2 days ago

ایک پروفیسر ٹرین میں سفر کر رہا تھا کہ ایک کسان ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ پروفیسر کو لگا کہ سفر لمبا ہے، کیوں نہ کچھ ذہنی ورزش کر لی جائے؟ اس نے کسان کی طرف دیکھا، جو بڑے مزے سے مونگ پھلی کھا رہا تھا، اور بولا:

پروفیسر (عینک ٹھیک کرتے ہوئے): "چلو ایک گیم کھیلتے ہیں! میں تم سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر تم جواب نہ دے سکے تو مجھے 100 روپے دینا ہوں گے۔ پھر تم مجھ سے سوال پوچھو گے، اگر میں نہ بتا سکا تو میں تمہیں 500 روپے دوں گا۔"

کسان (سوچتے ہوئے): "یعنی یا تو 100 کا نقصان یا 500 کا فائدہ؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ بکری پالوں، دودھ ملے تو ٹھیک، نہ ملے تو گوشت کا فائدہ! ٹھیک ہے، چلو کھیلتے ہیں!"

پروفیسر (اکڑ کر): "زمین اور چاند کے درمیان فاصلہ کتنا ہے؟"

کسان نے ایک لمحے کا بھی ضائع کیے بغیر جیب سے 100 روپے نکالے اور پروفیسر کے ہاتھ پر رکھ دیے، جیسے کوئی عام سی بات ہو۔

پروفیسر (حیران ہو کر): "تم نے سوچا بھی نہیں؟"

کسان (مسکراتے ہوئے): "ارے بھائی، میرا دماغ حساب کتاب کے لیے نہیں، کھیت جوڑنے کے لیے بنا ہے!"

اب کسان کی باری تھی۔

کسان (شرارتی انداز میں): "ایسا کون سا جانور ہے جو پہاڑ چڑھتے وقت تین ٹانگوں والا ہوتا ہے اور نیچے آتے وقت چار ٹانگوں والا؟"

پروفیسر کا دماغ ایک دم بریک فیل ٹرک کی طرح الٹنے لگا۔ اس نے سوچا، شاید کوئی نایاب جانور ہوگا، مگر ایسا سننے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ اس نے ذہن پر زور ڈالا، فلسفے میں گھس گیا، نوٹس کھنگالے، اور تو اور، بغل میں بیٹھے مسافر کی طرف بھی مدد کے لیے دیکھنے لگا۔ آخر کار، پورے پندرہ منٹ کی کشمکش کے بعد، اس نے مایوس ہو کر کسان کو 500 روپے دے دیے۔

کسان نے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ سجائی، رقم لی، اور مزے سے سونے لگا۔

مگر پروفیسر کے لیے یہ ہار برداشت کرنا مشکل تھا! اس نے کسان کو ہلایا اور بولا: "یار، مجھے بھی تو بتاؤ کہ وہ جانور کون سا ہے؟"

کسان نے آنکھیں کھولیں، ایک لمبی جمائی لی، جیب سے 100 روپے نکالے، پروفیسر کو دیے، اور بغیر کچھ بولے پھر سو گیا!

پروفیسر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، اور باقی سفر وہ کھڑکی سے باہر دیکھ کر اپنی قسمت کو کوستا رہا!

110 - 6

Learn Urdu Zaban
Posted 2 days ago

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے

رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے

میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے

مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

راحت اندوری

160 - 0

Learn Urdu Zaban
Posted 2 days ago

بیٹوں کی اقسام۔

بیٹے پانچ قسموں کے ہوتے ہیں:

۱: پہلے وہ جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا حُکم دیں تو کہنا نہیں مانتے، یہ عاق ہیں۔

۲: دوسرے وہ ہیں جنہیں والدین کسی کام کو کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بے دلی اور کراہت کے ساتھ، یہ کسی قسم کے اجر سے محروم رہتے ہیں۔

۳: تیسری قسم کے بیٹے وہ ہیں جنہیں والدین کوئی کام کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بڑبڑاتے ہوئے، سُنا سُنا کر، احسان جتلا کر، بکواس بازی کر کر کے۔ یہ کام کر کے بھی گھاٹے میں ہیں اور گناہ کما رہے ہیں۔

۴: چوتھی قسم کے وہ بیٹے ہیں جنہیں والدین کوئی کام بتا دیں تو خوش دلی سے کرتے ہیں، یہ اجر کماتے ہیں اور ایسے بیٹے بہت کم ہوتے ہیں۔

۵: پانچویں قسم کے وہ بیٹے ہیں جو والدین کی ضرورتوں کے کام اُن کے کہنے سے پہلے کر دیتے ہیں، یہ خوش بخت بیٹوں کی نادر قسم ہیں۔

آخری دو قسم کے بیٹے؛ ان کی عمر میں برکت، رزق میں وسعت، ان کے معاملات کی آسانی اور ان کے سینوں میں پڑی راحت اور وسعت کے بارے میں کچھ نا پوچھیئے، یہ تو بس اللہ “اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے”۔

ایک چھوٹا سا سوال ہے ہر اُس کرم فرما کیلئے جو اس وقت یہ پڑھ رہا ہے: آپ اوپر بیان کیئے گئے بیٹوں کی قسموں میں سے کون سی قسم کے بیٹے ہیں؟

(بھاگ کر اپنی ماں کے سر پر بوسہ دینے سے پہلے) اپنے آپ سے یہ پوچھ کر دیکھیئے کہ والدین کے ساتھ “بِر” یا حُسن سلوک یا راستبازی ہوتی کیا ہے؟

یہ حُسن سلوک؛ ماں یا باپ کے سر پر ایک بوسہ لے لینے کا نام نہیں ہے، ناں ہی ان کے ہاتھوں پر یا حتی کہ اُن کے پاؤں پر بوسہ لینے کا نام ہے۔ کہیں یہ کر کے تو اس گمان میں میں ناں پڑ جائے کہ تو نے ان کی رضا کو پا لیا ہے۔

حُسن سلوک یہ ہے کہ تو اُن کے دل میں آئی ہوئی خواہش کو محسوس کرے اور پھر اُن کے حُکم کا انتظار کیئے بغیر اس خواہش کو پورا کر دے۔

حُسن سلوک یہ ہے کہ تو یہ جاننے کی کوشش میں لگا رہے کہ انہیں کونسی بات خوشی دیتی ہے اور پھر اُس کام کو جلدی سے کر ڈالے۔ اور تو یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انہیں کس بات سے دُکھ پہنچتا ہے اور پھر اس کوشش میں رہے کہ وہ تجھ سے ایسی کوئی چیز کبھی بھی نا دیکھ پائیں۔

اُن سے حسن سلوک یہ ہے کہ تجھے ان کا احساس ہو، تو ان کیلیئے بات چیت کا وقت نکالتا ہو، انہیں کسی چیز کے کھانے پینے کی طلب ہو تو حاضر کر دیتا ہو بھلے یہ ایک چائے کا کپ ہی کیوں ناں ہو۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تو اُن کے آرام اور راحت کا خیال رکھے بھلے اس کیلیئے اپنی راحت کو ہی کیوں نا تیاگنا پڑے۔ اگر تیری دوستوں میں شب بیداری انہیں شاق گزرتی ہے تو تیرا جلدی سو جانا بھی ان کے ساتھ ایک حسن سلوک کی ہی ایک مثال ہے۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ ان کی خاطر اپنی دعوتیں ضیافتیں چھوڑ دے اگر اس سے تیرا اُن کے ساتھ میل جول متاثر ہوتا ہے تو۔

ایک مناسب ریسٹورنٹ پر ان کے ساتھ کھانا، حج و عمرہ میں ان کی راحت کے پیش نظر اچھے ہوٹل میں ان کے قیام کا بندوبست، حتی کہ کہیں چھوٹی موٹی تفریح اور پکنک جو تیرے والدین کے دل کو سرور دے اور وہ اپنی اس عمر میں بھی خوشی کا احساس پائیں۔

حسن سلوک یہ بھی ہے کہ تیرے والدین تیرے مال سے مستفیض ہو رہے ہوں بھلے وہ خود کیوں ناں مالدار ہوں۔ اور تیرا یہ جانے بغیر کہ ان کے پاس اب کتنے پیسے ہیں اور انہیں ضرورت ہے بھی یا کہ نہیں تو ان پر خرچ کرتا رہے۔

حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کی حتی المقدور راحت تلاش کرتا رہے اور انہوں نے تیری ولادت سے اب تک جو کچھ خدمت کر دی ہے کو کافی سمجھے اور اب ان کے احسانات کے بدلے میں کچھ نا کچھ کرتا رہے۔

حس سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کے لبوں پر کسی طرح ہنسی لاتا رہے بھلے تو اپنے نظروں میں کیوں ناں مسخرہ ہی لگ رہا ہو،

*آخری بات: والدین سے حسن سلوک تیرے اور تیرے بھائیوں بہنوں کے درمیان "باری بندی" کا نام نہیں۔ یہ تو ایک دوڑ کا نام ہے جو جنت کے دروازوں کی طرف جاری ہے اور پتہ نہیں کون پہلے پہنچ جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جنت کو بہت سے راستے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی راستے تیرے والدین سے ہو کر جاتے ہیں۔*

30 - 0

Learn Urdu Zaban
Posted 2 days ago

اِختلاف رائے میں ہر جگہ اپنی جیت کے لئے کوشش نہ کریں۔۔۔۔ بعض جگہوں پر رائے کی جیت سے دِل کا جیتنا زیادہ خوبصورت اِحساس ہوتا ہے۔۔۔۔۔

32 - 0

Learn Urdu Zaban
Posted 2 days ago

پیکر تراشی، سراپا نگاری، امیجری، تمثال دراصل وہ تصویر ہے جو شاعری کے مطالعے سے ذہن میں بنتی ہے۔ شاعر کی محسوسات اور واردات اپنے اظہار کے لیے جب لفظی تصویروں کا روپ دھار لیتے ہیں تو اس کو سراپا، پیکر، تصویر، امیج اور تمثال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
پیکر تراشی، سراپا نگاری، امیجری، تمثال دراصل وہ تصویر ہے جو شاعری کے مطالعے سے ذہن میں بنتی ہے۔ شاعر کی محسوسات اور واردات اپنے اظہار کے لیے جب لفظی تصویروں کا روپ دھار لیتے ہیں تو اس کو سراپا، پیکر، تصویر، امیج اور تمثال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

30 - 0